نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی
ہلانا لب ہے اپنا معجزہ بھی

یہ جو بخشا گیا ہے شعر کا فن
یہی نعمت یہی ہے اِبتلا بھی

اگر اِتنی ہی جینے کی ہوس ہے
تو اپنی ذات کا پتھر اٹھا بھی

تو کیا قارون بنتا جا رہا ہے
کمائی ہے اگر دولت لٹا بھی

تو ہر انداز میں پیارا ہے ہم کو
وفا چاہے کرے چاہے جفا بھی

تو جب غصے سے ہم کو دیکھتا ہے
کچھ اُس کے ساتھ میں ہو کر خفا بھی

اگرچہ جان لے لیتی ہے لیکن
ہمیں بھاتی ہے تیری یہ ادا بھی

حقیقت ایک ہی کے نام ہیں یہ
محبت بھی سکوں بھی اور خدا بھی

تو اپنے بادباں تو کھول ملاح
لگے گی چلنے دم بھر میں ہوا بھی

بغاوت کے نہیں آثار ہوتے
غلامی میں ہو جب شامل رضا بھی

نہیں ہے عشق اُس سے تو الگ ہو
جو اُس سے عشق ہے تو پھر نبھا بھی

نہ تیرا ساتھ دیں گے وقتِ رحلت
یہ تیرے بال بچے بھائی بھابھی

ترے نقصان کا سوچے گا کوئی
جگت کے بیچ تو سارے ہیں لابھی

بہادر کے قدم کپتے نہیں ہیں
اگرچہ بھے سے کپ جاتی ہے نابھی

نہیں معلوم تو بہتر ہے چپ رہ
اگر معلوم ہے تب کچھ بتا بھی

منیب احمد 16 جنوری 2022 لاہور

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا

اپنے بس کی بات نہیں ہے