نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی
نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی |
ہلانا لب ہے اپنا معجزہ بھی |
یہ جو بخشا گیا ہے شعر کا فن |
یہی نعمت یہی ہے اِبتلا بھی |
اگر اِتنی ہی جینے کی ہوس ہے |
تو اپنی ذات کا پتھر اٹھا بھی |
تو کیا قارون بنتا جا رہا ہے |
کمائی ہے اگر دولت لٹا بھی |
تو ہر انداز میں پیارا ہے ہم کو |
وفا چاہے کرے چاہے جفا بھی |
تو جب غصے سے ہم کو دیکھتا ہے |
کچھ اُس کے ساتھ میں ہو کر خفا بھی |
اگرچہ جان لے لیتی ہے لیکن |
ہمیں بھاتی ہے تیری یہ ادا بھی |
حقیقت ایک ہی کے نام ہیں یہ |
محبت بھی سکوں بھی اور خدا بھی |
تو اپنے بادباں تو کھول ملاح |
لگے گی چلنے دم بھر میں ہوا بھی |
بغاوت کے نہیں آثار ہوتے |
غلامی میں ہو جب شامل رضا بھی |
نہیں ہے عشق اُس سے تو الگ ہو |
جو اُس سے عشق ہے تو پھر نبھا بھی |
نہ تیرا ساتھ دیں گے وقتِ رحلت |
یہ تیرے بال بچے بھائی بھابھی |
ترے نقصان کا سوچے گا کوئی |
جگت کے بیچ تو سارے ہیں لابھی |
بہادر کے قدم کپتے نہیں ہیں |
اگرچہ بھے سے کپ جاتی ہے نابھی |
نہیں معلوم تو بہتر ہے چپ رہ |
اگر معلوم ہے تب کچھ بتا بھی |