شاید میں کچھ کر سکتا تھا
شاید میں کچھ کر سکتا تھا زخمِ تمنا بھر سکتا تھا خوف سے تھر تھر کانپنے والے! خوف بھی تجھ سے ڈر سکتا تھا اُس راہی نے منزل ماری جو رستے میں مر سکتا تھا اُس کی آنکھیں بول رہی تھیں جس کے ہونٹوں پر سکتا تھا در در دیتا ہوں آوازیں ورنہ چپ بھی گزر سکتا تھا