اشاعتیں

2024 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

اِک بار ترے دیکھنے کی چاہ تھی ہم کو

اِک بار ترے دیکھنے کی چاہ تھی ہم کو سو پوری ہوئی پوری ہوئی پوری ہوئی ہے کچھ پاس ہوئے پاس ہوئے پاس ہوئے تھے پھر دوری ہوئی دوری ہوئی دوری ہوئی ہے مختاری ہی مختاری ہی مختاری تھی خواہش مجبوری ہی مجبوری ہی مجبوری ہوئی ہے خباز نے پیڑے کو تپایا ہے بہت سا تب جا کے کہیں روٹی یہ تندوری ہوئی ہے اِس عاشقی کے نام پہ ہم خستہ تنوں سے مزدوری ہی مزدوری ہی مزدوری ہوئی ہے اے روشنیِ ماہ تری جلوہ گری سے مہ نوری ہی مہ نوری ہی مہ نوری ہوئی ہے منیب احمد 2 ستمبر 2024 لاہور

عشق کا دور نہ تھا

عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا کوئی طوفان نہ تھا آنکھ کا ہی پانی تھا جس کو سجدے کیے پوجا کیے معبود کیا بت خدا وہ نہیں تھا پیکرِ انسانی تھا شوق سے کوہ کو ہم کاٹنے چل نکلے تھے کٹ گئے آپ ہی یہ منظرِ حیرانی تھا کسب جو کچھ بھی کیا لفظی و مکتوبی تھا عرض جو کچھ بھی کیا ذوقی و وجدانی تھا چشمِ ظاہر نے دکھایا تھا جسے با معنی چشمِ باطن نے بتایا کہ وہ بے معنی تھا شہرِ لاہور کا گم نام سا شاعر تھا منیبؔ انوریؔ تھا نہ کوئی سعدیؔ و خاقانیؔ تھا