عشق کا دور نہ تھا
عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا |
کوئی طوفان نہ تھا آنکھ کا ہی پانی تھا |
جس کو سجدے کیے پوجا کیے معبود کیا |
بت خدا وہ نہیں تھا پیکرِ انسانی تھا |
شوق سے کوہ کو ہم کاٹنے چل نکلے تھے |
کٹ گئے آپ ہی یہ منظرِ حیرانی تھا |
کسب جو کچھ بھی کیا لفظی و مکتوبی تھا |
عرض جو کچھ بھی کیا ذوقی و وجدانی تھا |
چشمِ ظاہر نے دکھایا تھا جسے با معنی |
چشمِ باطن نے بتایا کہ وہ بے معنی تھا |
شہرِ لاہور کا گم نام سا شاعر تھا منیبؔ |
انوریؔ تھا نہ کوئی سعدیؔ و خاقانیؔ تھا |