اشاعتیں

مئی, 2013 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ہزار خار سہی پاے جستجو کے لیے

کسے فراغ پریشانیِ عدو کے لیے بہت ہے حلقۂ احباب ہاؤ ہو کے لیے حسد سے مانگتی پھرتی ہے چشمِ رو بہ فرار شکستگی تزکِ حسنِ خوب رو کے لیے ز شہرِ سنگ پرستاں ہوں داد خواہِ جنوں شکستِ شیشۂ پندارِ آبرو کے لیے سخن طرازیِ فاتحؔ ہے پاسِ اہلِ ہنر مقامِ نقد نہیں خوے عیب جو کے لیے (ق) اُڑی جو دشت میں بادِ خزاں بھبوکے لیے تو پہلے بوسے مری چشمِ بے وضو کے لیے کہا یہ میں نے کہ مت چھیڑ فکرمندِ بہار! کہ ہم بھی بیٹھے ہیں کچھ داغ آرزو کے لیے ذرا متابعِ جوشِ جنوں تو ہوں کہ چلیں ہزار خار سہی پاے جستجو کے لیے

گر شرحِ نکتہ ہاے حکیمانہ چاہیے

گر شرحِ نکتہ ہاے حکیمانہ چاہیے طبعِ سلیم! عقلِ سلیمانہ چاہیے ہے پردگی ظہور کا سامانِ واقعی معبود بہرِ عبد حجابانہ چاہیے مشمولِ اہلِ باغ ہوں ہر چند مثلِ گل یک رنگِ خودنمائی جداگانہ چاہیے ہو جائے کشت و خون مبادا رواج کار ہر شہر ساتھ جادۂ ویرانہ چاہیے شمعِ کلامِ فاتحِؔ مجذوب کے لیے وارفتگاں میں خوبیِ پروانہ چاہیے