اشاعتیں

ستمبر, 2016 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

مست چاند

انجم بہ کف ہے رات صراحی بہ دست چاند پی پی کے نور مہر کا نکلا ہے مست چاند ہرچند گل کیے سبھی اسبابِ روشنی لیکن بجھا نہ پائے کبھی شب پرست چاند دشتِ فلک میں فکرِ دگرگوں کے واسطے کرتا ہے روشنی کا سدا بندوبست چاند آدم کی دست رس سے ہیں افلاک دم بہ خود زہرہ ہے اِک زقند تو ہے ایک جست چاند شب رو کو حق طلب یہ دکھاتا ہے راہِ حق شاید کہ ہو گا شاہدِ روزِ الست چاند کیوں کر کہوں کہ لگتا ہے وہ مجھ کو ماہ وش ذوقِ رفیع اپنے کے آگے ہے پست چاند دیپک، کنول، چراغ، دیے، موم بتیاں ہیں دل شکستہ پر نہیں مانا شکست چاند کہنا اُسے کہ بیت گیا ایک اور سال نکلے جو اب کے پہلی کا ماہِ اگست چاند کیا ہے منیبؔ اپنے تخیل سے ماورا تاروں میں بود و باش کبھی بود و ہست چاند

تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو

تم جو بیمار بنے بیٹھے ہو کیوں اداکار بنے بیٹھے ہو تم میں تھی قدرتِ عیسیٰ نفسی تمھی مردار بنے بیٹھے ہو تم تھے نقاشِ مقدر اپنے نقشِ دیوار بنے بیٹھے ہو جوہرِ ذات بھی رکھ کر نادر کتنے نادار بنے بیٹھے ہو خود کو کہلا کے خدا کا نائب بتِ پندار بنے بیٹھے ہو سرد دل، سرد بدن، سرد نگاہ گرم گفتار بنے بیٹھے ہو شک کی دیوار اٹھا کر دل میں خاطر آزار بنے بیٹھے ہو شب پرستوں کی مجالس میں منیبؔ شمع بردار بنے بیٹھے ہو