اشاعتیں

2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

ایک دن اور جی لیا ہم نے

کھا لیا ہم نے پی لیا ہم نے ایک دن اور جی لیا ہم نے چوٹ اِک اور لگ گئی دل کو زخم اِک اور سی لیا ہم نے کل بھی کر کے جسے تھے پچھتائے آج پھر کر وہی لیا ہم نے

ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا

ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا ہو گئی تقدیر آخر کامیاب اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا

اوڑھ کر ہم نے جامۂ افرنگ

اوڑھ کر ہم نے جامۂ افرنگ کر فراموش اپنی چال ہی دی ٹالتے ٹالتے ہر اِک دن کو زندگی تم نے ساری ٹال ہی دی کان میں بات ڈالنی تھی مجھے کان میں بات میں نے ڈال ہی دی

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی ہلانا لب ہے اپنا معجزہ بھی یہ جو بخشا گیا ہے شعر کا فن یہی نعمت یہی ہے اِبتلا بھی اگر اِتنی ہی جینے کی ہوس ہے تو اپنی ذات کا پتھر اٹھا بھی تو کیا قارون بنتا جا رہا ہے کمائی ہے اگر دولت لٹا بھی تو ہر انداز میں پیارا ہے ہم کو وفا چاہے کرے چاہے جفا بھی تو جب غصے سے ہم کو دیکھتا ہے کچھ اُس کے ساتھ میں ہو کر خفا بھی اگرچہ جان لے لیتی ہے لیکن ہمیں بھاتی ہے تیری یہ ادا بھی حقیقت ایک ہی کے نام ہیں یہ محبت بھی سکوں بھی اور خدا بھی تو اپنے بادباں تو کھول ملاح لگے گی چلنے دم بھر میں ہوا بھی بغاوت کے نہیں آثار ہوتے غلامی میں ہو جب شامل رضا بھی نہیں ہے عشق اُس سے تو الگ ہو جو اُس سے عشق ہے تو پھر نبھا بھی نہ تیرا ساتھ دیں گے وقتِ رحلت یہ تیرے بال بچے بھائی بھابھی ترے نقصان کا سوچے گا کوئی جگت کے بیچ تو سارے ہیں لابھی بہادر کے قدم کپتے نہیں ہیں اگرچہ بھے سے کپ جاتی ہے نابھی نہیں معلوم تو بہتر ہے چپ رہ اگر معلوم ہے تب کچھ بتا بھی