اشاعتیں

عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا

عشق کا دور نہ تھا عرصۂ نادانی تھا کوئی طوفان نہ تھا آنکھ کا ہی پانی تھا جس کو سجدے کیے پوجا کیے معبود کیا بت خدا وہ نہیں تھا پیکرِ انسانی تھا شوق سے کوہ کو ہم کاٹنے چل نکلے تھے کٹ گئے آپ ہی یہ منظرِ حیرانی تھا کسب جو کچھ بھی کیا لفظی و مکتوبی تھا عرض جو کچھ بھی کیا ذوقی و وجدانی تھا چشمِ ظاہر نے دکھایا تھا جسے با معنی چشمِ باطن نے بتایا کہ وہ بے معنی تھا شہرِ لاہور کا گم نام سا شاعر تھا منیبؔ انوری تھا نہ کوئی سعدی و خاقانی تھا منیب احمد 20 مارچ 2024 لاہور

چل رہی ہے چلا رہے ہیں ہم

چل رہی ہے چلا رہے ہیں ہم ٹل رہی ہے ٹلا رہے ہیں ہم ہڈی ہڈی ہمارے تن کے بیچ گل رہی ہے گلا رہے ہیں ہم خون پی پی کے زندگی اپنا پل رہی ہے پلا رہے ہیں ہم منیب احمد 4 اکتوبر 2023 لاہور

اپنے بس کی بات نہیں ہے

پڑھنا پڑھانا اپنے بس کی بات نہیں ہے لکھنا لکھانا اپنے بس کی بات نہیں ہے چپ رہ جانا کچھ نہیں کہنا بس میں ہے شور مچانا اپنے بس کی بات نہیں ہے تک بندی ہم کر لیتے ہیں تھوڑی سی شعر بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے سادہ سے اِک آدمی ہیں ہم ایم اے پاس زیادہ کمانا اپنے بس کی بات نہیں ہے ساتھی تیرے ساتھ سے ہم پہ ظاہر ہے ساتھ نبھانا اپنے بس کی بات نہیں ہے سادہ سی اِک زندگی کو اُلجھا لیا ہے سہج بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے دوسروں کے میں کام تو کرتا ہوں لیکن کام کرانا اپنے بس کی بات نہیں ہے پیڑوں کے پھل کھانے کی حسرت تو ہے پیڑ ہلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے آج سے میں بس شعر لکھوں گا کاغذ پر ویڈیو بنانا اپنے بس کی بات نہیں ہے شاعری کر کے ذہن بہت تھک جاتا ہے ہل یہ چلانا اپنے بس کی بات نہیں ہے منیب احمد 8 اپریل 2023 لاہور

ایک دن اور جی لیا ہم نے

کھا لیا ہم نے پی لیا ہم نے ایک دن اور جی لیا ہم نے چوٹ اِک اور لگ گئی دل کو زخم اِک اور سی لیا ہم نے کل بھی کر کے جسے تھے پچھتائے آج پھر کر وہی لیا ہم نے منیب احمد 23 جون 2022 لاہور

ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا

ہوں میں کل سنسار سے اوبا ہوا اور اپنے آپ میں ڈوبا ہوا ہو گئی تقدیر آخر کامیاب اپنا ہر ناکام منصوبا ہوا تو محب اپنا ہوا نہ ایک دل میں ترا سارا ہی محبوبا ہوا جب ہوئی ہم کو طلب تیری ہوئی جب ہوا تب تو ہی مطلوبا ہوا اِس طرح سے ہو گیا تن خشک تر جس طرح پنجاب کا صوبا ہوا میں ہوا یعنی کہ ناممکن ہوا میں مٹا یعنی کہ اعجوبا ہوا ہر نگر اپنے لیے جنت ہوا ہر شجر اپنے لیے طوبا ہوا جس پہ غالب ہو گئی دنیا کی فکر آخرش فکروں کا ملغوبا ہوا میم ہے کوئی نہ کوئی ہے الف اِس تخلص سے بھی ہوں اوبا ہوا منیب احمد 18 فروری 2022 لاہور

اوڑھ کر ہم نے جامۂ افرنگ

اوڑھ کر ہم نے جامۂ افرنگ کر فراموش اپنی چال ہی دی ٹالتے ٹالتے ہر اِک دن کو زندگی تم نے ساری ٹال ہی دی کان میں بات ڈالنی تھی مجھے کان میں بات میں نے ڈال ہی دی منیب احمد 2 فروری 2022 لاہور

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی

نہیں ہے جان اب باقی ذرا بھی ہلانا لب ہے اپنا معجزہ بھی یہ جو بخشا گیا ہے شعر کا فن یہی نعمت یہی ہے اِبتلا بھی اگر اِتنی ہی جینے کی ہوس ہے تو اپنی ذات کا پتھر اٹھا بھی تو کیا قارون بنتا جا رہا ہے کمائی ہے اگر دولت لٹا بھی تو ہر انداز میں پیارا ہے ہم کو وفا چاہے کرے چاہے جفا بھی تو جب غصے سے ہم کو دیکھتا ہے کچھ اُس کے ساتھ میں ہو کر خفا بھی اگرچہ جان لے لیتی ہے لیکن ہمیں بھاتی ہے تیری یہ ادا بھی حقیقت ایک ہی کے نام ہیں یہ محبت بھی سکوں بھی اور خدا بھی تو اپنے بادباں تو کھول ملاح لگے گی چلنے دم بھر میں ہوا بھی بغاوت کے نہیں آثار ہوتے غلامی میں ہو جب شامل رضا بھی نہیں ہے عشق اُس سے تو الگ ہو جو اُس سے عشق ہے تو پھر نبھا بھی نہ تیرا ساتھ دیں گے وقتِ رحلت یہ تیرے بال بچے بھائی بھابھی ترے نقصان کا سوچے گا کوئی جگت کے بیچ تو سارے ہیں لابھی بہادر کے قدم کپتے نہیں ہیں اگرچہ بھے سے کپ جاتی ہے نابھی نہیں معلوم تو بہتر ہے چپ رہ اگر معلوم ہے تب کچھ بت